جیسے بہت سے لوگوں سمیت ہمارے لیے ٹورمالین جھیل (مقامی زبان میں “سر”) ایک نیا نام ہے تو دل بہت کر رہا تھا کہ اس جھیل کو دیکھ لیتے ہیں اور ہم نے 2022 کی گرمیوں میں اس بارے بہت بات کی اور ترتیبیں بنتی رہیں۔
 بلاآخر یہ ستمیر 2022 کا پہلہ ہفتہ تھا جب ہم نے پلان بنایا کہ ہم چند دوست ہمراہ کچھ بزرگ ہم نے طے کیا کہ ہم اسی ہفتے نکلیں گے۔ سب سے پہلے میں ، محمد شہزاد اور قاری بشیر اصلاح صاحب اپنے گاوُں سے جانوئی کے لیے نکلے اور رات کو ہمارے ایک خالو غلام سرور اعوان صاحب کے گھر رکے اور سرور صاحب ہی ہمارے رہبر بھی تھے اس سفر میں۔ رات کو ہم جلدی سو گئے اور صبع بہت سویرے جاگنے کے بعد ناشتہ کر کے ہم لگ بھگ 7 بجے جانوئی سے نکلے، ہم نے اپنے پاس کافی کم سامان اٹھا رکھا تھا چونکہ سنا تھا کہ سفر کافی لمبا ہے اور دشوار گزار بھی تو ہم نے صرف چاکلیٹس، بسکٹ ، نمکو اور جوسز وغیرہ ہی اٹھا رکھے تھے اس کے علاوہ سب نے بارش اور سردی کی متوقع پریشانی سے پچنے کے لیے جیکٹ بھی ساتھ رکھ لیے۔

 خیر ہم نے سفر کا آغاز کیا تو فوری ہی ہم جانوئی کے ساتھ ہی بہنے والے نالے نے ہمارا استقبال کیا اور عجیب و غریب و خطرناک عجوبہ طرز پلوں سے گزرتے ہوئے لگ بھگ 4 سے زائد گھنٹے ہم اس نالے کے ساتھ ساتھ وادی میں چلتے گئے.

 

اس دوران بہت زیادہ چڑہائی کہیں بھی نہیں تھی بلکہ مناسب راستہ تھا اور جب تک ہم نالے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے تو کوئی حد درجے کا خطرناک راستہ بھی دیکھنے کو نہیں ملا البتہ جو بھی پل ہم نے پار کیے وہ سب کافی احتیاط کرنے والے تھے۔ لگ بھگ 11 بجے ہم جانوئی والوں کی بہک “اگلی بستی” پہنچے تو بھوک دستک دے رہی تھی حالانکہ ہم راستے میں جہاں جہاں رکتے ہم کچھ چاکلیٹس و نمکو وغیرہ کھا لیتے تھے لیکن یہ خوراک کا بہترین متبادل تو تھے نہیں۔ اگلی بستی پہنچ کر محترم سرور صاحب ہمیں ایک گھر لے گئے وہاں ہم نے دیسی گھی کے ساتھ ایک بہترین ٹی بریک کی اور تھوڑا سستانے کے بعد ہم نے جھیل کی طرف سفر شروع کر دیا.
 اب اس اگلی بستی والے پوائنٹ سے امتحان والے سفر کا آغاز ہو تا ہے، یہاں سے کچھ دیر کے لیے اوپر کی طرف کھڑی چڑھائی ہے اور لگ بھگ گھنٹہ چلنے کے بعد دوبارہ مناسب چڑھائی والا خطرناک راستہ شروع ہو جاتا ہے۔
 اس راستے میں آپکو توجہ اور آنکھیں اپنے راستے پر مرکوز رکھنی پڑھتی ہیں لیکن یہاں ہی آپ قدرت کے عظیم شہکاروں سے بھی ملتے ہیں ہر طرف دل موہ لینے والے مناظر کے ساتھ ساتھ حیرت انگیز پہاڑ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کئی سو فٹ بلند پہاڑیاں آپکا استقبال کرنے کو بے چین نظر آتی ہیں جیسے انہوں نے کبھی کوئی دوست نظر نہ دیکھا ہو۔ کئی ایک چوٹیاں جوں جوں آپ آگے بڑھتے ہیں تو وہ آپکے پیروں کے نیچے نظر آنے لگتی ہیں لیکن واپس آئیے اس دوران آپکو سانس پھولنے جیسے مسلئے کا سامنہ ہوتا ہے۔
 اس راستے میں جھیل سے تقریبا 2 گھنٹے پیچھے آپکو آزاد کشمیر کے نیٹ ورک “ایس کام ” کے سگنل مل جاتے ہیں اور باآسانی کال ہو جاتی ہے۔ اور یہ ایک خاص ایریا ہے جہاں سروس آتی ہے۔
 وہاں سے نکل کر آگے جھیل سے 1 گھنٹہ پیچھے آپکو ایک انتہا درجے کا خطرناک راستہ سے گزرنا ہوتا ہے وہاں احتیاط کریں۔ بلاآخر آپ کو جھیل کے پاس کے پہاڑ نظر آتے ہیں اور آپ جھیل کے قریب پہچ جاتے ہیں جلدی نہ کریں بلکہ دل تھام لیں کیوں کے آپ ایک ایسی جھیل کے پاس جا رہے ہیں جسے صدیوں سے انسانوں نے نہیں دیکھا ہوتا اور آپ اس صدی میں ان عظیم لوگوں میں شامل ہو جاتے ہیں جو کہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں موجود اس عظیم جھیل کو دیکھنے والے عظیم لوگوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
 جھیل کو پہلی نظر دیکھنے پر ایک ہی لفظ زبان سے نکلتا ہےاور وہ ہوتا ہے ” سبحان اللہ ” اور پھر آپ اس جھیل کا سحر آپ پر طاری ہوتا ہے نظریں اس پر ٹک جاتی ہے اور واپسی کا دل نہیں کرتا لیکن جوں جوں دن گزرے گا یخ ٹھنڈی ہوا آپکو تھپتپھائے گی کی بھائی جاگو یہاں میں سردی بھی موجود ہوں اور اس طرح آپ نہ چاہیتے ہوئے بھی جھیل کو “الوداع” کہیں گے اور واپسی پر مجبور ہو جائیں گے۔
 یاد رہے کہ یہ جھیل لگ بھگ 13000 سے 15000 فٹ بلند ہے اور نومبر سے مئی تک مکمل برف میں ڈھکی رہتی ہے اور یہاں جانے کے لیے بہترین مہینے ” جون ، جولائی اور اگست” ہیں ۔ اس جھیل کے ساتھ موجوں پہاڑوں میں کئی ایک گمنام جھیلیں ابھی موجود ہیں اور کئی ایک دریافت بھی ہو چکی ہیں جن میں سے ایک مشہور زمانہ جھیل “چٹا کٹھہ جھیل” جو کہ اس ٹورمالین جھیل کے بلکل عقب والے پہاڑوں پر موجود ہے ( ہم نے 2022 کے اگست کے مہینے میں چٹا کھٹہ دیکھی تھی اور اس کی روداد بھی لکھی گئی ہے جسے آپ ہمارے بلاگ پر اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں اور یوٹیوب پر اس جھیل سے متعلق تمام معلومات اور ہمارا  وی لاگ بھی اس تحریر کے آخر میں دیے لنکس پر دیکھ سکتے ہیں)۔
 خیر ترستی آنکھیں بند کر کے آپ جھیل سے اوجھل جو کہ بوجھل قدموں کے ساتھ ہوتے ہیں تو آپ واپس اسی راستے پر گامزن ہو جاتے ہیں جہاں سے آپ گزر کر گئے ہوتے ہیں واپسی پر آپ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے آپ کا سفر کا دل نہیں کر رہا ہوتا لیکن مجبوری سے واپس چلنا ہے پڑھتا ہے۔
 اس جھیل کی طرف ابھی سیاحوں کی آمدورفت بلکل نہ ہے کیوں کے نئی دریافت کردہ جھیل ہے اس لیے اس راستے میں آپکو کوئی بیس کیمپ وغیرہ نہیں ملتا ہے اس لیے اگر آپ نے اس جھیل پر جانا ہے تو پہلے معلومات لیں اور آپ ہم سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں ، اس جھیل کا بیس کیمپ جانوئی گاوُں ہے جہاں آپکو ہوٹل مل جائیں گے اور جانوئی سے آپ کو گائیڈ بھی مل جائے گا اور پھر راستے میں آپکو جانوئی والوں کی بہک میں رکنا ہو گا اور وہی آپ کے لیے ایک کیمپ ہو گا اس کے علاوہ فلحال کوئی کیمپ کی سہولت نہ ہے۔
 ہم بھی جھیل سے واپس آئے تو بہک اگلی بستی سے پہلے ہمیں شام ہو گئی اور ہم نے رات پچھلی بستی جو کہ اگلی بستی کے ساتھ موجود بہک ہے میں محترم سلیم صاحب جو کہ “جندرسیری گاوں” سے ہیں کے پاس رکئے ان کے پاس ایک صاف ستھرا ٹینٹ موجود تھا اور ہم نے ایک بہترین رات گزاری اور صبع ہم واپس جانوئی پہنچے۔
 اس طرح ہمارا سفر تمام ہوا۔ اس سفر کے دوران ایک حیران کر دینے والی چیز سنی گئی اور وہ تھی جھیل میں آئی تبدیلی جسے ہم موسمیاتی تبدیلی کا اثر کہہ سکتے ہیں اس سفر میں ہم نے وہاں کئی سالوں سے جانے والے مقامی باشندوں سے بات کی تو انہوں نے جھیل سے متعلق اپنی محبت بیان کی لیکن ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ چند سال پہلے تک جھیل کے آس پاس گلیشئیرز سارا سال موجود ہوتے تھے اور جھیل میں پانی کی سطح بھی بلند رہتی تھی لیکن اب جھیل کے آس پاس گلیشئیرز تو موجود نہ ہیں بلکہ سالانہ پڑھنے والی برف بھی اپریل و مئی میں پگھل جاتی ہے جس سے جھیل کا قدرتی حسن کسی حد تک ماند پڑ گیا ہے۔ ہمارے رہبر محترم سرور صاحب نے بھی اپنے بچپن کو آج سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم بچپن میں آتے تھے تو جھیل جسے وہ سر کے نام جانتے تھے کی شکل کچھ اور ہوتی تھی بلکہ اس کے آس پاس کئی ایک تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے ایک عجیب سی بات تھی بلکہ ماہرین ماحولیات کے لیے یہ ایک ریسرچ پوائنٹ ہو سکتا ہے۔

Links for the Videos of VLOGs & Information of the Lake

1. Chitta Katha Lake Shounter Valley

2. Tourmaline Lake Janwai Gurez Valley

3. Spoon Lake Shounter Valley

4. Chitta Katha V/S Tourmaline Lake